جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پے اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم
دور افق پر چمکتی ہوئی
قطرہ قطرہ
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی
مدھم مدھم
دور افق پر چمکتی ہوئی
قطرہ قطرہ
www.hindustantimes.com/india-news/a...
www.hindustantimes.com/india-news/a...
رہنما کے بغیر کوئی منزل نہیں۔
ایسے لمبے سفر میں سفر کے لئے
جیسے موسی کو راہ میں خضر چاہئے۔
گویا ایک پیغمبر کو بھی رہبر چاہئے۔
ہم نے کہہ تو دیا تم نے سن تو لیا۔
ہم کو کیاچاہئے۔
ہم کو منزل ،نہیں رہنما چاہئے۔
رہنما کے بغیر کوئی منزل نہیں۔
ایسے لمبے سفر میں سفر کے لئے
جیسے موسی کو راہ میں خضر چاہئے۔
گویا ایک پیغمبر کو بھی رہبر چاہئے۔
ہم نے کہہ تو دیا تم نے سن تو لیا۔
ہم کو کیاچاہئے۔
ہم کو منزل ،نہیں رہنما چاہئے۔
تم کو محسن گلستان سے کیا چاہئے ۔
میں نے بے خوف و بے باک ہوکر کہا۔
مجھ کو منصف کا کلمۂ وفا چاہئے۔
جو نقیب محبت بھی ہو۔
اس وفا کا مجھ کو آسرا چاہئے۔
تم کو محسن گلستان سے کیا چاہئے ۔
میں نے بے خوف و بے باک ہوکر کہا۔
مجھ کو منصف کا کلمۂ وفا چاہئے۔
جو نقیب محبت بھی ہو۔
اس وفا کا مجھ کو آسرا چاہئے۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا