ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ
ﺁﻧﮑھ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ
ﺁﻧﮑھ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
راحت اندوری
تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے
مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
راحت اندوری
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے
جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے
رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ
ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے
رَبّ کہے ۔۔۔
تیرے زمانے اب نہیں رہے
انسان سبھی مر چُکے
صرف ہُجُوم زندہ ہے ۔۔۔۔
احساسات سے عاری
فقّط جُنوں زندہ ہے
تُو لوٹ جا ۔۔۔۔۔
غارِ اصحابِ کہف میں پھر سے سو جا ۔۔۔!!
نور الہدیٰ شاہ
رَبّ کہے ۔۔۔
تیرے زمانے اب نہیں رہے
انسان سبھی مر چُکے
صرف ہُجُوم زندہ ہے ۔۔۔۔
احساسات سے عاری
فقّط جُنوں زندہ ہے
تُو لوٹ جا ۔۔۔۔۔
غارِ اصحابِ کہف میں پھر سے سو جا ۔۔۔!!
نور الہدیٰ شاہ
غارِ اصحابِ کہف میں جا کر سوجاؤں
جب نیند سے اُٹھوں ۔۔۔۔
میرا زمانہ گُزر چُکا ہو
میرے سِکّے کھوٹے ہو چُکے ہوں
میری بات کوئی نہ سمجھتا ہو
مجھے کوئی نہ جانتا ہو ۔۔۔۔۔
رَبّ سے پُوچھوں
بتا کہاں جاؤں ۔۔۔۔
غارِ اصحابِ کہف میں جا کر سوجاؤں
جب نیند سے اُٹھوں ۔۔۔۔
میرا زمانہ گُزر چُکا ہو
میرے سِکّے کھوٹے ہو چُکے ہوں
میری بات کوئی نہ سمجھتا ہو
مجھے کوئی نہ جانتا ہو ۔۔۔۔۔
رَبّ سے پُوچھوں
بتا کہاں جاؤں ۔۔۔۔
ایک ھی فن تو ھم نے سیکھا ھے
جس سے ملیے ، اُسے خفا کیجیے
ملتے رھیے اِسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجیے ۔
”جون ایلیاء“
ایک ھی فن تو ھم نے سیکھا ھے
جس سے ملیے ، اُسے خفا کیجیے
ملتے رھیے اِسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجیے ۔
”جون ایلیاء“
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
جام خالی سفره خالی ساغر و پیمانه خالی
کوچ کرده دسته دسته آشنایان عندلیبان
باغ خالی باغچه خالی شاخه خالی لانه خالی
وفا دے وچ فنا تھی ونج بقا جانے خُدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بیکار نئیں ویندی
دُعا شاکر توُں منگی رکھ ، دُعا جانے ، خُدا جانے
شاکر شجاع آبادی
وفا دے وچ فنا تھی ونج بقا جانے خُدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بیکار نئیں ویندی
دُعا شاکر توُں منگی رکھ ، دُعا جانے ، خُدا جانے
شاکر شجاع آبادی
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا
چمن آباد رکھ ، بادِ صبا جانے خدا جانے
مریضِ عشق خود کو کر، دوا دل دی سمجھ دلبر
مرض جانے ، دوا جانے ، شفا جانے ، خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا
چمن آباد رکھ ، بادِ صبا جانے خدا جانے
مریضِ عشق خود کو کر، دوا دل دی سمجھ دلبر
مرض جانے ، دوا جانے ، شفا جانے ، خدا جانے