اردو تحریروں اور شاعری کا گلدستہ 📚
Urdu Poetry and Literature
#Urdu
#اردو
#شاعری
آغاز 27 دسمبر 2023
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا،
مزا گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں
لطف دیتی ہے، حلق چھوتی ہے اردو تو، حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اترتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا،
مزا گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں
لطف دیتی ہے، حلق چھوتی ہے اردو تو، حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اترتا ہے
بس محبت محبت محبت کرو
سرحدوں کے تو حاکم بہت ہیں مگر
مشورہ ہے کہ دل پہ حکومت کرو
چاہتوں کے لیے تم ہو پیدا ہوئے
تم سے کس نے کہا ہے کہ نفرت کرو
میرا دکھ مجھ کو کم کم سا لگنے لگا
اپنا غم اور تھوڑا عنایت کرو
ایک دن وہ بھی قدموں میں آ جائے گا
اپنے دشمن کی بس آپ عزت کرو
بس محبت محبت محبت کرو
سرحدوں کے تو حاکم بہت ہیں مگر
مشورہ ہے کہ دل پہ حکومت کرو
چاہتوں کے لیے تم ہو پیدا ہوئے
تم سے کس نے کہا ہے کہ نفرت کرو
میرا دکھ مجھ کو کم کم سا لگنے لگا
اپنا غم اور تھوڑا عنایت کرو
ایک دن وہ بھی قدموں میں آ جائے گا
اپنے دشمن کی بس آپ عزت کرو
بس محبت محبت محبت کرو
سرحدوں کے تو حاکم بہت ہیں مگر
مشورہ ہے کہ دل پہ حکومت کرو
چاہتوں کے لیے تم ہو پیدا ہوئے
تم سے کس نے کہا ہے کہ نفرت کرو
میرا دکھ مجھ کو کم کم سا لگنے لگا
اپنا غم اور تھوڑا عنایت کرو
ایک دن وہ بھی قدموں میں آ جائے گا
اپنے دشمن کی بس آپ عزت کرو
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
فیض احمد فیض
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
فیض احمد فیض
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ھندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ھندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہد ہوّس کا وہ فسانا یاد ہے
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے
دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہد ہوّس کا وہ فسانا یاد ہے
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیرؔ
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیرؔ
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
پردیس میں مستقل سکونت چاہتا ہے
عزت و ذِلت سے مُبرا جہاں کے بدلے
ذہن و جگر کی دشمن، عفُونت چاہتا ہے
پردیس میں مستقل سکونت چاہتا ہے
عزت و ذِلت سے مُبرا جہاں کے بدلے
ذہن و جگر کی دشمن، عفُونت چاہتا ہے
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
فاعلاتن فعلاتن فعلن
اس سے مصرع روا نہیں ہوتا
پینے پڑتے ہیں سینکڑوں آنسو
درد خود تو دوا نہیں ہوتا
جو بھی انساں ہے یار انساں ہے
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا
ویسے رشتے بہت سے ہیں ساحلؔ
درد سا اک سگا نہیں ہوتا
اے آر ساحل علیگ
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
فاعلاتن فعلاتن فعلن
اس سے مصرع روا نہیں ہوتا
پینے پڑتے ہیں سینکڑوں آنسو
درد خود تو دوا نہیں ہوتا
جو بھی انساں ہے یار انساں ہے
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا
ویسے رشتے بہت سے ہیں ساحلؔ
درد سا اک سگا نہیں ہوتا
اے آر ساحل علیگ
ترے بعد میں کبھی پھر ہرا نہیں ہو سکا
سرِ بزم ہیں یہی تذکرے کہ برا ہوں میں
مرا جرم ہے کہ میں بے وفا نہیں ہو سکا
کسی اور شب میں سناؤں گا یہ غزل تمہیں
ابھی آنکھ نم ابھی دل دعا نہیں ہو سکا
ـ مبارک صدیقی ـ
ترے بعد میں کبھی پھر ہرا نہیں ہو سکا
سرِ بزم ہیں یہی تذکرے کہ برا ہوں میں
مرا جرم ہے کہ میں بے وفا نہیں ہو سکا
کسی اور شب میں سناؤں گا یہ غزل تمہیں
ابھی آنکھ نم ابھی دل دعا نہیں ہو سکا
ـ مبارک صدیقی ـ
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
- جون ایلیا -
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
- جون ایلیا -
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
ـ جون ایلیا ـ
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
ـ جون ایلیا ـ
تو کیا تمہاری خامشی کا کوئی حل نہیں رہا؟
کڑی مسافتوں نے کس کے پاؤں شل نہیں کیے؟
کوئی دکھاؤ جو بچھڑ کے ہاتھ مل نہیں رہا
جواد شیخ
تو کیا تمہاری خامشی کا کوئی حل نہیں رہا؟
کڑی مسافتوں نے کس کے پاؤں شل نہیں کیے؟
کوئی دکھاؤ جو بچھڑ کے ہاتھ مل نہیں رہا
جواد شیخ
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
کلیم عاجز
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
کلیم عاجز
کلیم عاجز کی ایک غزل
کلیم عاجز کی ایک غزل
دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش
حمایت علی شاعر
دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش
حمایت علی شاعر
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخیِ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
فیض احمد فیض
#اردوشاعری
#اردو
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخیِ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
فیض احمد فیض
#اردوشاعری
#اردو
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
خزاں میں اہل نشیمن کا حال تو دیکھا
قفس نصیب پہ کیا گزری ہے خدا جانے
کسی کی مست خرامی سے شیخ نالاں ہیں
قدم قدم پہ بنے جا رہے ہیں مے خانے
یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
خزاں میں اہل نشیمن کا حال تو دیکھا
قفس نصیب پہ کیا گزری ہے خدا جانے
کسی کی مست خرامی سے شیخ نالاں ہیں
قدم قدم پہ بنے جا رہے ہیں مے خانے
یہ انقلاب نہیں ہے تو اور کیا بسملؔ
نظر بدلنے لگے اپنے جانے پہچانے
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں
عبدالحمید عدم
جن سے انساں کو پہنچتی ہے ہمیشہ تکلیف
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصل خدا والے ہیں
عبدالحمید عدم
سینے میں یہ دم شمعِ سحر گاہی ہے
جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے
پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس
اے عمرِ دراز تیری کوتاہی ہے
میر انیس
سینے میں یہ دم شمعِ سحر گاہی ہے
جو ہے اس کارواں میں وہ راہی ہے
پیچھے کبھی قافلہ سے رہتا نہ انیس
اے عمرِ دراز تیری کوتاہی ہے
میر انیس
بجھا کے چھوڑ گئی طاق پر ہوا مجھ کو
بجھا کے چھوڑ گئی طاق پر ہوا مجھ کو