`گفتگو ایسے کیجیے`
کہ امید کے دیے جلیں، دل نہیں۔
`قدر ایسے کیجیے`
کہ آپ کے آس پاس والوں کو جینے کا حوصلہ ملے، مرنے کا نہیں۔
`احساس ایسے کیجیے`
کہ انسانوں کو انسانیت پر یقین ہو جائے، انسانیت کے اٹھ جانے کا نہیں۔
`گفتگو ایسے کیجیے`
کہ امید کے دیے جلیں، دل نہیں۔
`قدر ایسے کیجیے`
کہ آپ کے آس پاس والوں کو جینے کا حوصلہ ملے، مرنے کا نہیں۔
`احساس ایسے کیجیے`
کہ انسانوں کو انسانیت پر یقین ہو جائے، انسانیت کے اٹھ جانے کا نہیں۔
ایسے ویسے بھی اچھے لگتے ہیں۔۔ ❣
ایسے ویسے بھی اچھے لگتے ہیں۔۔ ❣