وہ مجھکو بھول بیٹھا ھے , میرا وجدان کہتا ہے
ملاقاتیں نہیں ممکن , تعلق بھی محال اب تو
تیرے لہجے کی چاہت کا , چھپا فقدان کہتا ہے
وہ مجھکو بھول بیٹھا ھے , میرا وجدان کہتا ہے
ملاقاتیں نہیں ممکن , تعلق بھی محال اب تو
تیرے لہجے کی چاہت کا , چھپا فقدان کہتا ہے
> *یـــوں آ کــر تیــــرے خیـــالـــ نــــے اچــــھا نہـــــی کیـــا..!!
> *یـــوں آ کــر تیــــرے خیـــالـــ نــــے اچــــھا نہـــــی کیـــا..!!
وہ تھکن بھی اتار دی میں نے
اک خواہش تھی اُس سے ملنے کی
پھر وہ "خواہش" بھی مار دی میں نے
پوچھتے کیا ہو 'زندگی' کے بارے میں؟؟؟
مجھ پر گزری۔۔۔۔گزار دی میں نے۔۔۔!
وہ تھکن بھی اتار دی میں نے
اک خواہش تھی اُس سے ملنے کی
پھر وہ "خواہش" بھی مار دی میں نے
پوچھتے کیا ہو 'زندگی' کے بارے میں؟؟؟
مجھ پر گزری۔۔۔۔گزار دی میں نے۔۔۔!
اسے موسموں سے غرض نہیں،
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں،
اسے آب دے یا سراب دے۔
کبھی یوں بھی ہو تیرے روبرو،
میں نظر ملا کر کہہ سکوں،
میری خواہشوں کا شمار کر،
میری حسرتوں کا حساب دے…!!!
اسے موسموں سے غرض نہیں،
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں،
اسے آب دے یا سراب دے۔
کبھی یوں بھی ہو تیرے روبرو،
میں نظر ملا کر کہہ سکوں،
میری خواہشوں کا شمار کر،
میری حسرتوں کا حساب دے…!!!
تو بس نشان لگا دے کہاں کہاں ہوں میں
تو بس نشان لگا دے کہاں کہاں ہوں میں
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
خوشی کا ستیا ناس کر کے
میرے رقیبوں کو خاص کر کے
بہت ہی دوری سے پاس کر کے
تمہیں یہ لگتا تھا
جانے دیں گے ؟
سبھی کو جا کے ہماری باتیں
بتاؤ گے اور
بتانے دیں گے ؟
تم ہم سے ہٹ کر وصالِ ہجراں
مناؤ گے اور
منانے دیں گے ؟
میری نظم کو نیلام کر کے
کماؤ گے اور
کمانے دیں گے ؟
تو دل آزاری کرے اور مکافات نہ ہو
تو دل آزاری کرے اور مکافات نہ ہو
گِرتی ہُوئی دِیوار پہ تنقید کا حق ہے
ہاں ! مَیں نے لہُو اَپنا گُلستاں کو دیا ہے
مُجھ کو گُل و گُلزار پہ تنقید کا حق ہے
مَیں یاد دِلاتا ہُوں ، شِکایت نہِیں کرتا
بُھولے ہُوئے اِقرار پہ ، تنقید کا حق ہے
مجروح جو کر دے دِل اِنساں کی حقیقت
اس شوخیِ گفتار پہ تنقید کا حق ہے
گِرتی ہُوئی دِیوار پہ تنقید کا حق ہے
ہاں ! مَیں نے لہُو اَپنا گُلستاں کو دیا ہے
مُجھ کو گُل و گُلزار پہ تنقید کا حق ہے
مَیں یاد دِلاتا ہُوں ، شِکایت نہِیں کرتا
بُھولے ہُوئے اِقرار پہ ، تنقید کا حق ہے
مجروح جو کر دے دِل اِنساں کی حقیقت
اس شوخیِ گفتار پہ تنقید کا حق ہے
آدمی اپنے لفظوں سے پہچانا جاتا ہے
آدمی اپنے لفظوں سے پہچانا جاتا ہے
جو سا تھ رہیں تو دنیا کی
ہر چیز
اضافی لگتی ہے
جو بات
گوارا مشکل ہو
و ہ قابلِ معافی لگتی ہے
دم بھر کی قربت بھی جنکی
صدیوں کی
تلافی لگتی ہے
تم ان لوگوں میں شامل ہو
جو سا تھ رہیں تو دنیا کی
ہر چیز
اضافی لگتی ہے
جو بات
گوارا مشکل ہو
و ہ قابلِ معافی لگتی ہے
دم بھر کی قربت بھی جنکی
صدیوں کی
تلافی لگتی ہے
تم ان لوگوں میں شامل ہو
وطن سے دور , پردیس میں جیسے سادات اُجڑے
عشق نے تو فقط ایک ہی فرد کو پنکھے سے لٹکایا
مگر اُس گھر کے مکیں تھے سات اور سات اُجڑے
وطن سے دور , پردیس میں جیسے سادات اُجڑے
عشق نے تو فقط ایک ہی فرد کو پنکھے سے لٹکایا
مگر اُس گھر کے مکیں تھے سات اور سات اُجڑے
خواب اوقات سے مہنگے نہیں دیکھا کرتے
تیر واپس نہیں آتے ہیں کمانوں میں کبھی
پھاڑ کر خط کے تراشے نہیں دیکھا کرتے
خواب اوقات سے مہنگے نہیں دیکھا کرتے
تیر واپس نہیں آتے ہیں کمانوں میں کبھی
پھاڑ کر خط کے تراشے نہیں دیکھا کرتے
گھر کی چاہ تھی گھر والوں نے شرط بھی تگڑی رکھ دی تھی
یار میری آنکھوں میں دیکھو میں تو صرف تمہاری ہوں
یار میرے پیروں میں میرے باپ نے پگڑی رکھ دی تھی
گھر کی چاہ تھی گھر والوں نے شرط بھی تگڑی رکھ دی تھی
یار میری آنکھوں میں دیکھو میں تو صرف تمہاری ہوں
یار میرے پیروں میں میرے باپ نے پگڑی رکھ دی تھی
آہ، وہ لوگ جو مجبورِ یقیں ہوتے ہیں
آہ، وہ لوگ جو مجبورِ یقیں ہوتے ہیں
ابھی تو بات لمحوں تک ہے،
سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی،
نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری،
خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے،
بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی تو بات لمحوں تک ہے،
سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی،
نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری،
خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے،
بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے
ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے
اسے کہنا کبھی پہلے تمہاری بات ٹالی ہے !!
سو اب جو پھول اگنے ہیں وہ دنیاوی نہیں ہوں گے !!
تمہارے پیروں کی مٹی چھان کر گملوں میں ڈالی ہے
اسے کہنا کبھی پہلے تمہاری بات ٹالی ہے !!
سو اب جو پھول اگنے ہیں وہ دنیاوی نہیں ہوں گے !!
تمہارے پیروں کی مٹی چھان کر گملوں میں ڈالی ہے
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض کہتے تھے "اور بھی دکھ ہیں"
فیض کہتے تھے "اور بھی دکھ ہیں"
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺧﺎﺭ ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﻤﻮﻝ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﮐﻮﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺎ ﮨﮯ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺧﺎﺭ ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﻤﻮﻝ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﮐﻮﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺎ ﮨﮯ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﻠﮯ ﮨﯿﮟ۔