ہمیشہ بھولتے جاتے ہیں جو کچھ یاد کرتے ہیں
زمانہ کا معلم امتحاں ان کا نہیں کرتا
جو آنکھیں کھول کر یہ درس ہستی یاد کرتے ہیں
چکبست برج نرائن
ہمیشہ بھولتے جاتے ہیں جو کچھ یاد کرتے ہیں
زمانہ کا معلم امتحاں ان کا نہیں کرتا
جو آنکھیں کھول کر یہ درس ہستی یاد کرتے ہیں
چکبست برج نرائن
کون جھگڑا کرے مقدر سے
جمال احسانی
کون جھگڑا کرے مقدر سے
جمال احسانی
یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہوچکا ایسے نہیں ہوتا
فیض احمد فیض
یہاں پیمان تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا
ہر اک شب ہر گھڑی گزرے قیامت یوں تو ہوتا ہے
مگر ہر صبح ہو روز جزا ایسے نہیں ہوتا
رواں ہے نبض دوراں گردشوں میں آسماں سارے
جو تم کہتے ہو سب کچھ ہوچکا ایسے نہیں ہوتا
فیض احمد فیض
کچھ عکس مگر جھیل میں رہتے ہیں ہمیشہ
مبہم مجھے رہنے دے کہ ابلاغ کے جھگڑے
اظہار کی تفصیل میں رہتے ہیں ہمیشہ
جمال احسانی
کچھ عکس مگر جھیل میں رہتے ہیں ہمیشہ
مبہم مجھے رہنے دے کہ ابلاغ کے جھگڑے
اظہار کی تفصیل میں رہتے ہیں ہمیشہ
جمال احسانی
کیوں کہ رشتے سارے اب اسی میں قید ہیں
گلزار
کیوں کہ رشتے سارے اب اسی میں قید ہیں
گلزار
یہی رشتہ کار حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی باوفا
کٹی عمر اپنی یہاں وہاں کہیں دل لگا کہیں نہیں لگا
منیر نیازی
یہی رشتہ کار حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی باوفا
کٹی عمر اپنی یہاں وہاں کہیں دل لگا کہیں نہیں لگا
منیر نیازی
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار
سنا گئی ہے فسانے ادھر اُدھر کے مجھے
ناصر کاظمی
سنا گئی ہے فسانے ادھر اُدھر کے مجھے
ناصر کاظمی
تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے
تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر
پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے
تعبیر کیا ملے گی ان کو بھلا سحر سے
گذری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل کے
بازیگری سے پر ہے سوداگروں کی دنیا
ممکن ہے ہر تماشہ ہندسے بدل بدل کے
ظہیر احمد
تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے
تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر
پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے
تعبیر کیا ملے گی ان کو بھلا سحر سے
گذری ہے رات جن کی سپنے بدل بدل کے
بازیگری سے پر ہے سوداگروں کی دنیا
ممکن ہے ہر تماشہ ہندسے بدل بدل کے
ظہیر احمد
ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں آبیاری کی ضرورت ہے
ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں آبیاری کی ضرورت ہے
کہ ہم جو تھے بے حساب اتنے
بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے
مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے
منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے
منیر نیازی
کہ ہم جو تھے بے حساب اتنے
بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے
مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے
منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے
منیر نیازی
اک مرتبہ خود اپنی طرف دھیان بھی گیا
جمال احسانی
اک مرتبہ خود اپنی طرف دھیان بھی گیا
جمال احسانی
میں اگر جھوٹ نہ بولوں تو اکیلا ہو جاؤں
احمد کمال پروازی
میں اگر جھوٹ نہ بولوں تو اکیلا ہو جاؤں
احمد کمال پروازی
جواب جن کا نہیں وہ سوال کرتا ہے
پنہاں
جواب جن کا نہیں وہ سوال کرتا ہے
پنہاں
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے
کیجے نہ ریگزار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز گھٹا پر نہ جائیے
عرفان صدیقی
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے
کیجے نہ ریگزار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز گھٹا پر نہ جائیے
عرفان صدیقی
ہیں باغ چند یہاں، سبز باغ کتنے ہیں
ہے ایک شور فضا میں عجیب بے ہنگم
گنے چنے یہاں بلبل ہیں، زاغ کتنے ہیں
جو دشمنوں سے ملے وہ ہیں صرف گنتی کے
ملے جو ہم نفسوں سے وہ داغ کتنے ہیں
عرفان ستار
ہیں باغ چند یہاں، سبز باغ کتنے ہیں
ہے ایک شور فضا میں عجیب بے ہنگم
گنے چنے یہاں بلبل ہیں، زاغ کتنے ہیں
جو دشمنوں سے ملے وہ ہیں صرف گنتی کے
ملے جو ہم نفسوں سے وہ داغ کتنے ہیں
عرفان ستار
یار بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھا ہے
احمد فراز
یار بے فیض سے ہلکا سا ملال اچھا ہے
لذتیں قرب و جدائی کی ہیں اپنی اپنی
مستقل ہجر ہی اچھا نہ وصال اچھا ہے
احمد فراز
اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے
مشتاق نقوی
اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے
مشتاق نقوی
ہر ایک در کی گدائی کے بعد یاد آئے
ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں تھے جان فراز
کہ تجھ کو ساری خدائی کے بعد یاد آئے
احمد فراز
ہر ایک در کی گدائی کے بعد یاد آئے
ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں تھے جان فراز
کہ تجھ کو ساری خدائی کے بعد یاد آئے
احمد فراز
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
مصطفیٰ زیدی
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
مصطفیٰ زیدی
ستارہ شام ہجراں کا ادھر بھی آ نکلتا ہے
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
آفتاب حسین
ستارہ شام ہجراں کا ادھر بھی آ نکلتا ہے
دل مضطر وفا کے باب میں یہ جلد بازی کیا
ذرا رک جائیں اور دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے
آفتاب حسین