اک اندھیرے میں امید کے دیپ ہاتھوں میں تھامے ہوئے
کہہ رہا ہے مسلسل کوئی آپ سے اخری کال ہے
احمد فرہاد
اک اندھیرے میں امید کے دیپ ہاتھوں میں تھامے ہوئے
کہہ رہا ہے مسلسل کوئی آپ سے اخری کال ہے
احمد فرہاد
جاں بکف ہم نکل آئے آنکھوں میں خوابوں کے جگنو لیے
اب نہ دو سر بچانے کے یہ مشورے آخری کال ہے
منزلیں سرفروشوں کی میراث ہیں بزدلوں کی نہیں
توڑ دو دست آہن سے ظلمت کدے آخری کال ہے
راستے اب لہو کے سمندر سے اٹ بھی اگر جائیں تو
دوستو کم نہ ہو پائیں یہ حوصلے آخری کال ہے
جاں بکف ہم نکل آئے آنکھوں میں خوابوں کے جگنو لیے
اب نہ دو سر بچانے کے یہ مشورے آخری کال ہے
منزلیں سرفروشوں کی میراث ہیں بزدلوں کی نہیں
توڑ دو دست آہن سے ظلمت کدے آخری کال ہے
راستے اب لہو کے سمندر سے اٹ بھی اگر جائیں تو
دوستو کم نہ ہو پائیں یہ حوصلے آخری کال ہے