اندر سے بھی کوئی مِرے پر کاٹ رہا ہے
اے چادرِ منصب! تِرا شوق ِ گل ِ تازہ
شاعر کا تِرے دست ِ ہنر کاٹ رہا ہے
کس شخص کا دل میں نے دکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اَثر کاٹ رہا ہے
قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مِرے پر کاٹ رہا ہے
اے چادرِ منصب! تِرا شوق ِ گل ِ تازہ
شاعر کا تِرے دست ِ ہنر کاٹ رہا ہے
کس شخص کا دل میں نے دکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اَثر کاٹ رہا ہے
قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے
در و دیوار بھی ہو جاتے ہیں گھر سے غائب
فیصل عجمی
در و دیوار بھی ہو جاتے ہیں گھر سے غائب
فیصل عجمی
مجھ سے نہ پوچھ میرے سفر کی اذیتیں🖤
مجھ سے نہ پوچھ میرے سفر کی اذیتیں🖤